Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر


کیسے کر پاتے تیرے پیار کا اظہار صنم

ہم تیری چاہت کو اس دل میں چھپائے رکھتے

دل کی دھڑکن میں تیرا پیار بسا رکھا ہے

ہم کہاں اس کو یوں ہاتھوں میں اٹھائے رکھتے

”میں اس وقت تک تمہارا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا  جب تک تم میری انا پر لگائے زخموں پر مرہم نہیں لگاؤ گی… آخر تمہیں حق کس نے دیا ہے کہ تم جب بھی دل چاہے میرے کردار پر کیچڑ اچھالو؟ مجھے میری نگاہوں میں گرانے کی کوشش کرو؟“ اس کی آنکھیں  اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

پری کے ہاتھ کو اس نے ابھی تک مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ اس کی ناراضگی و وحشت پری کی مزاحمت کمزور کر رہی تھی۔

”بحیثیت کزن! میں عادلہ سے بھی نارمل طریے سے بی ہیو کرتا ہوں  وہ تمہاری طرح نہیں چڑتی۔ خود کو نیک پروین ثابت کرنے کی سعی نہیں کرتی  آج تمہیں بتانا ہوگا۔
(جاری ہے)

“ اس کی گرفت اس کے ہاتھ پر قدرے ڈھیلی ہوئی تھی اور لہجے کا تناؤ بھی کم ہوا تھا۔
”تم کسی کمپلیکس کا شکار ہو یا اوور کانفیڈنس کا؟“

”میرا ہاتھ چھوڑ دیں طغرل بھائی!“ اس نے اپنے لہجے کو کمزور نہیں ہونے دیا تھا  دل کی حالت زیر و زبر تھی مگر وہ اس وقت اس خوف و تنہائی کے عالم میں اس پر کسی قسم کی کمزوری کا احساس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے پری کے چہرے کو دیکھا تھا  جہاں ناگواری و ناپسندیدگی کی اتنی گہری دھند تھی کہ اس کو محسوس ہوا کہ وہ اس سے بہت فاصلے پر کھڑی ہے۔
جس کی مسافت طے کرنا کم از کم اس کے اختیار کی بات نہ تھی۔

”مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے  میں بے حد غیر اہم لڑکی ہوں  میری کھوج میں پڑ کر آپ صرف وقت کا زیاں کر رہے ہیں طغرل بھائی! ہاتھ چھوڑ دیں پلیز…“ بہت برہم انداز میں اس کا ہاتھ چھوڑ کر وہ تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔

اس کے قدموں کی دھمک سے فضا گونجنے لگی تھی  پری نے ڈبڈباتی نظروں سے اپنی سفید کلائی کو دیکھا تھا۔
جس پر اس کی مضبوطی انگلیوں کے سرخ نشان ثبت ہو کر رہ گئے تھے۔

آنسو بے حد خاموشی سے ٹوٹ کر رخساروں پر بہتے رہے۔ وہ نیم مردہ قدموں سے اپنے کمرے میں آ گئی اور کچھ دیر خالی ذہن کے ساتھ بیٹھے رہنے کے بعد پھر گہرا سانس لے کر سیل پر نمبر پش کرنے لگی۔

###

وہ تیز تیز قدموں سے گھر پہنچی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے گلفام کو گھر میں بیٹھے دیکھا  وہ پلنگ پر بیٹھا بے قراری سے اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
لمحے بھر کو دونوں کی نگاہیں ٹکرائی تھیں اور نامعلوم ان صاف و شفاف براؤن آنکھوں میں کون سا جذبہ تھا  کون سی اذیت تھی جو وہ گھبرا کر نگاہیں جھکانے پر مجبور ہو گئی تھی۔

”السلام علیکم!“ وہ کہہ کر آگے بڑھی۔

سارا گھر خاموش تھا۔ ماں اور چچی دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔

”امی اور چچی کہاں ہیں؟ کہیں گئی ہیں کیا؟“ بہت تیزی سے اپنی گھبراہٹ و بوکھلاہٹ پر قابو پاکر پلنگ پر بیٹھتے ہوئے جوتے اتارتے ہوئے عام سے انداز میں گویا ہوئی تھی۔

”ابو کی خالہ  خالہ بختاور کا انتقال ہو گیا  وہاں گئے ہیں سب۔“ اس نے جواب دیا تو اس کی آواز میں شگفتگی و جنوں خیزی نہیں تھی جو اس سے بات کرتے ہوئے اس کے لہجے میں در آئی تھی  عجیب رندھا رندھا لہجہ تھا  اس کا یقین سمندر میں ڈوبتی  ابھرتی کسی کشتی کی طرح وہ اس کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا گویا پہچاننے کی سعی کر رہا ہو۔

”اوہ… تو سب کو جانے کی کیا ضرورت تھی؟ صرف ابو اور امی چلے جاتے وہاں۔
چچی اور چچا بھی چلے گئے خواہ مخواہ…“ وہ بے زاری سے جوتے اتار کر اٹھتے ہوئے بولی پھر بیگ اور جوتے اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔

”یہ کیسی باتیں کرتی ہو رخ! خالہ بختاور دنیا چھوڑ گئی ہیں… سب کا جانا ضروری تھا۔“ اس کے انداز پر وہ افسردگی سے گویا ہوا تھا۔

”اچھا! سب کے جانے سے کیا خالہ بختاور واپسی کا ارداہ کر لیں گی کہ چلو بھئی! اب ناراضگی ختم سب لوگ آ گئے ہیں  واپسی کی راہ پکڑی جائے…!“

”استغفر اللہ! کیسی بھٹکی ہوئی باتیں کر رہی ہو  مرنے والوں کیلئے ایسی باتیں نہیں کرتے  ویسے بھی وہ ابو کی سگی خالہ تھیں۔
“ گلفام نے بے حد نرمی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

”پھر تم کیوں نہیں گئے؟ تمہیں بھی جانا چاہئے تھا  آخر وہ ابو اور چچا کی سگی خالہ تھی  تم نہیں گئے تو ان کی روح اداس ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے تم سے شکایت کرنے یہاں بھی آ جائے۔“ وہ اپنے ذہنی خوف پر مکمل قابو پا چکی تھی اور شوخ انداز میں اس کو چھیڑ رہی تھی۔

”مرنے والوں کا مذاق نہیں اڑاتے۔
اللہ کو پسند نہیں ہے یہ اور میں تو تمہارے لئے یہاں رک گیا تھا  تایا اور تائی نے کہا تھا تمہیں ساتھ لے کر آؤں۔“

”مائی گاڈ! میں بھی جاؤں گی وہاں…“ وہ کمرے میں جاتے جاتے پلٹ کر ناگواری سے گویا ہوئی۔

”ہاں! آج کوئی گھر نہیں آئے گا  وہیں رکیں گے سب  اتنا قریبی رشتہ ہے۔“

”اوہو! تو وہ کون سی سولہ سال کی عمر میں مری ہیں؟ پورے ساٹھ سال کراس کر چکی تھیں اور اب بھی نہ مرتیں کیا؟ جو اتنا سوگ منایا جا رہا ہے۔
میں نہیں رکوں گی وہاں پر۔“ اس کے انداز میں جھنجلاہٹ تھی۔

”رخ! بات سنو؟“ اس کو آگے بڑھتے دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں پکار اٹھا۔ کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اس کے قدم رک گئے تھے۔

”تم روز کالج سے اتنی دیر میں آتی ہو؟“ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا  پل بھر کو وہ کچھ کہہ نہیں پائی تھی۔

”نہیں! کبھی جلدی بھی آ جاتی ہوں اور کبھی اس سے بھی زیادہ دیر ہو جاتی ہے۔

”بس میں آتی ہو گی ناں؟“ وہ اٹکتے لہجے میں پوچھ رہا تھا۔

”نہیں!“ وہ اسے گھور کر طنز سے گویا ہوئی۔ ”تم میرے لئے جہاز بھیجتے ہو ناں اسی میں آتی ہوں۔“ اس کے انداز پر وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیا تھا جب کہ وہ مزے سے کمرے میں چلی گئی تھی  وہ خاصی دیر ہلتے پردے کو دیکھتا رہا تھا۔ ایک گرد آلود موسم اس کے دل کے افق پر بھی چھایا ہوا تھا۔
آج جو کچھ اس کی نگاہوں نے دیکھا تھا نامعلوم وہ اس کی آنکھوں کا دھوکا تھا یا وقت کی حقیقت تھی۔

جو کچھ بھی تھا  مگر بہت تکلیف دہ تھا۔ اس نے ماہ رخ سے دل کی گہرائیوں سے محبت کی تھی  اس کے ایک ایک عکس سے  ہر ایک روپ سے واقف تھا وہ… وہ خواہ کتنے پردوں میں رہ کر اوجھل ہو جائے کوئی سا بھی بہروپ دھار لے اس کی محبت کی کشش  اس کے جذبوں کی لگن  اسے شناخت کر لے گی۔
کیا معاف بھی کر دے گی؟ وہ گہری سوچوں میں گم تھا۔

###

کال کرکے اس نے ڈرائیور کو بلوا لیا اور دادی کو بتانے چلی آئی۔ طغرل کی اس حرکت کے بعد اس کا بالکل بھی دل رکنے کو تیار نہ تھا ور رات گئے جانے کی اطلاع پر دادی نے چونک کر اس کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر استفسار کیا۔

”رات کے اس پہر جاؤ گی؟ کیا ہوا ہے؟ کوئی بات ہوئی ہے؟“

”دادی جان! میں جانا چاہتی ہوں  مجھے جانا ہے ابھی اور اسی وقت۔
“ دل کی کیفیت کا اثر تھا جو زبان بھی کچھ کڑوی ہو گئی تھی۔

”کل تک انکار کر رہی تھیں جانے سے… یہ آناً فاناً جانے کی سدھ کیا اٹھی ہے تمہیں؟ صبح چلی جانا کیا سوچیں گی  تمہاری نانی کہ اس وقت کیوں آئی ہو… تم؟“ انہوں نے رسانیت سے سمجھانے کی کوشش کی اس وقت وہ طغرل کی موجودگی میں یہاں رکنا نہیں چاہتی تھی سو گویا ہوئی۔

”ہاں… تم صبح تک کیوں رکو گی؟ تمہارے نہ جانے سے قیامت آ جائے گی۔
ضدی تو سدا کی ہو  وہی کرتی ہو جو دل میں سودا سما جائے  جاؤ…“

جب وہ وہاں پہنچی تو اس کی کال کی وجہ سے نانو جاگ رہی تھیں۔ انہوں نے بے حد محبت سے اس کو گلے لگایا اور بتایا کہ اس کی مما وہاں موجود ہیں۔ اس وقت وہ سو رہی ہیں۔

اس نے منع کر دیا کہ وہ ان کو بیدار نہ کریں  صبح ملاقات ہو جائے گی۔ جب مثنٰی اٹھیں اور مما کی زبانی پری کی آمد کا سنا تو وہ فکر مند ہو گئیں۔

”ممی! پری رات کو آئی ہے… کوئی گڑ بڑ ہے ورنہ اس سے قبل تو وہ شوفر کو واپس بھیج چکی تھی  آنے سے انکار کر دیا تھا اس نے۔“ واک کرتے ہوئے عشرت جہاں ان کی تشویش کو رد کرتے ہوئے بولیں۔

”کیا گڑبڑ ہو گی بھلا؟ یہ اٹل حقیقت ہے کہ اس کی دادی اور باپ بھرپور خیال رکھتے ہیں پری کا  کوئی کیا گڑبڑ کر سکتا ہے؟“

”میں جانتی ہوں ممی! وہ اس طرح آنے والی نہیں ہے۔
اس کی اپنے باپ کی طرح بڑی اونچی ناک ہے  کوئی بات خلاف توقع ہوئی ہے جس کی باعث وہ رات کو آئی ہے۔“ مثنیٰ کے چہرے پر تفکرات کے جال تھے وہ مضطرب ہو گئی تھیں۔ وہ پری کے بیدار ہونے کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھیں۔ ناشتے کی ٹیبل پر ملاقات ہوئی تو حسب عادت انہوں نے گلے لگا کر اس کی پیشانی چومی۔ ان کی نگاہیں پڑی بے تابی سے اس کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔
عشرت جہاں بہت اپنائیت سے اس کو ناشتہ کروا رہی تھیں اور ان کی نظریں گاہے بگاہے اس کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔ جہاں ایسا کچھ نہیں تھا جو ان کو چونکانے کا باعث بنتا۔ البتہ یہ احساس ان کو شدت سے ہو رہا تھا کہ… وہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ اور کم گو ہو چکی ہے۔ گہری براؤن آنکھوں میں خاموشی ساکت ہو گئی ہے۔

”پری! آپ کی مما بہت پریشان ہیں آپ کی وجہ سے۔
“ نانو نے سلائس پر مکھن لگا کر اسے دیتے ہوئے کہا۔

”وہ کیوں؟“ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ مثنیٰ نے چونک کر اسے دیکھا۔

”مثنیٰ کا خیال ہے کہ آپ کو کوئی پرابلم ہوئی ہے جو آپ رات کو اچانک آئی ہیں۔“ پھر اس کے روکھے انداز کو نوٹ کرکے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ”ایسی کوئی بات ہوئی ہے کیا پری؟“ اس نے سلائس کھاتے ہوئے دونوں کی طرف غور سے دیکھا اور بولی۔

”دادی ٹھیک کہہ رہی تھیں… مت جاؤ اس ٹائم۔“

”ارے ایسی بات نہیں ہے پری! یہ آپ کا گھر ہے  یہاں آنے کیلئے کسی ٹائمنگ کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس کا بگڑتا موڈ دیکھ کر عشرت جہاں تیزی سے گویا ہوئی۔

”میرا کوئی گھر نہیں ہے  نہ یہ گھر ہے  نہ وہ گھر میرا ہے۔ میں اپنی مرضی سے نہ کہیں آ سکتی ہوں  نہ جا سکتی ہوں۔“ وہ غصے سے ناشتہ چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اس کی یہ شدید ناراضگی ان کو پریشان کر گئی تھی۔

انہوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ مثنیٰ نے وہاں سے جاتی پری کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔

”پری! دس از ناٹ گڈ! کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنی ڈپریسڈ ہو؟ بتاؤ مجھے  اس طرح غصہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔“

”پلیز! آپ ہاتھ نہ لگائیں مجھے  آپ کا کوئی حق نہیں ہے مجھ پر۔“ اس نے شدید خفگی سے ان سے ہاتھ چھڑایا تھا۔

”پری…!“ وہ اس کے انداز پر شاکڈ رہ گئی تھیں۔ جب کہ پری بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔

”کچھ مت سوچو مثنیٰ! وہ ٹھیک ہو جائے گی ابھی… آؤ تم ناشتہ کرو  میں اس کو ابھی اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرواؤں گی۔“ عشرت جہاں گم صم کھڑی مثنیٰ کا ہاتھ تھام کر تسلی دینے لگیں۔

”ممی! میں کیسے کچھ نہیں سوچوں؟ برتاؤ دیکھا آپ نے اس کا؟ وہ کہتی ہے میرا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔
کیا ہوا ہے ممی اسے  اس نے تو کبھی نگاہ اٹھا کر مجھ سے بلند لہجے میں بات نہیں کی تھی  اس کا لہجہ تو ہمیشہ برف کی طرف ٹھنڈا اور روئی کی طرح نرم ہوتا تھا۔“ وہ شدید اسٹریس کا شکار ہو رہی تھیں۔

”کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے  بچے ماں سے خفا ہو جاتے ہیں  تم بھی ہو جاتی ہو ناں مجھ سے خفا پھر اسی طرح غصے کا اظہار کرتی ہو۔“ وہ ان کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے رسانیت سے سمجھا رہی تھیں۔

”ناراضگی  خفگی  جھگڑا یہ سب محبتوں کا ہی تو انداز ہے۔ بس ذرا اس کا رنگ مختلف ہے  انداز جدا ہے۔“

   2
0 Comments